نوح ناروی ۔۔۔ اہلِ الفت سے تنے جاتے ہیں

اہلِ الفت سے تنے جاتے ہیں

روز روز آپ بنے جاتے ہیں

ذبح تو کرتے ہو کچھ دھیان بھی ہے

خون میں ہاتھ سنے جاتے ہیں

روٹھنا ان کا غضب ڈھائے گا

اب وہ کیا جلد منے جاتے ہیں

کچھ اِدھر دل بھی کھنچا جاتا ہے

کچھ اُدھر وہ بھی تنے جاتے ہیں

کیوں نہ غم ہو مجھے رسوائی کا

وہ مرے ساتھ سَنے جاتے ہیں

دل نہ گھبرائے کہ وہ روٹھ گئے

چار فقروں میں مَنے جاتے ہیں

ہے یہ مطلب نہیں چھیڑے کوئی

بیٹھے بیٹھے وہ تنے جاتے ہیں

بے وفاؤں سے وفا کی امید

نوحؔ نادان بنے جاتے ہیں

Related posts

Leave a Comment